لولاک ما خلفت الافلاک : والی روایت کا حکم | اگر آپ نہ ہوتے، تو میں اس کائنات کی تخلیق نہیں کرتا : والی حدیث کی تحقیق

0

  السلام علیکم ورحمت وبرکاتہ

سلسلۂ تخریج الاحادیث نمبر 7


”لولاک ما خلفت  الافلاک“ 


ترجمہ : اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے، تو میں اس کائنات کی تخلیق نہیں کرتا۔

اس حدیث کو حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے موضوع قرار دیا ہے۔ 

[بالترتیب دیکھیں:

فتاوی عزیزی: ١/١٢٢

امداد الفتاوی:٧٩/٤]

تاہم اکثر محدثین اس حدیث کو معنی ومفہوم  کو درست اور ثابت کر دیا ہے، جن میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ حافظ عجلونی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ قاوقجی رحمۃ اللہ علیہ شامل ہے۔

[بالترتیب دیکھیں:

(الموضوعات الکبیری،١٩٤،رقم ٧٥٥)

(کشف الخفاء، ج٢،رقم :٢١٢٣،ص:١٩١)

(اللؤلؤ المرصوع  رقم:٤٥٢،ص١٥٤)]

ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مفہوم کی ایک مرفوع روایت بھی ذکر کی ہے،چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

" قال الصغانی انہ موضوع ، کذا فی الخلاصۃ ، لکن معناہ صحیح و فقد روی الدیلمی عن ابن عباس مرفوعۃ ، اتانی جبریل فقال یا محمد : لولاک ما خلقت الجنۃ ولولاک ما خلقت النار “[الموضوعات الکبیری:ص١٩٤،رقم ٧٥٥]


ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائیے،چنانچہ انہوں نے کہا کہ ( اللہ تعالی نے فرمایا) اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ نہ ہوتے تو جنت اور جہنم پیدا نہ کرتا۔

اسی طرح ایک اور روایت حافظ شہردار بن شیرویہ دیلمی اپنی کتاب مسند الفردوس“ میں اس طرح سے ذکر فرماتے ہیں:


      "عبید اللہ بن موسی القرشی، حدثنا الفضیل بن جعفر بن سلیمان، عن عبد الصمد بن علی بن عبد اللہ بن عباس، عن ابیہ، عن ابن عباس: یقول اللہ عز وجل: وعزتی وجلالی، لولاک ما خلقت الجنۃ، ولولاک ما خلقت الدنیا“


ترجمہ : اللہ رب العزت نے فرمایا: میری عزت کی قسم ! میرے جلال کی قسم! اگر آپ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو نہ میں جنت کو پیدا کرتا نہ دنیا کو۔

زیر بحث روایت عبد اللہ بن عباس موقوفا یا مرفوعاً بسند عبد الصمد بن علی کا متن سابقہ تمام سندوں کی طرح علامہ عبد الحی لکھنوی اور علامہ محمد بن خلیل المشیشی کے اقوال کے تناظر میں من گھڑت ہے، اس لئے یہ روایت مذکورہ سند سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کرنا درست نہیں ہے۔

 حضرت عمر بن الخطاب (مرفوع طر یق)۔ 

② حضرت سلمان فارسی (مرفوع طریق)۔

③ حضرت عبد اللہ ابن عباس (موقوفا دو مختلف سندوں سے)۔ 


      زیر بحث روایت مذکورہ تمام طرق کے ساتھ شدید ضعیف یا من گھڑت ہے، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب اس روایت کو منسوب کرنا درست نہیں ہے۔


تتمہ: ذیل میں ان علماء کے نام لکھے جارہے ہیں، جنہوں نے مختلف سندوں سے یا سند ذکر کیے بغیر مطلقا زیر بحث روایت کو من گھڑت کہا ہے۔


 ①. حافظ صغانی

 حافظ صغانی کے قول کو ان حضرات نے اکتفاء نقل کیا ہے:

ملا علی قاری، علامہ طاہر پٹنی، علامہ عجلونی،  علامہ شوکانی، 

② حافظ ابن الجوزی

③ حافظ ابن تیمیہ

④ حافظ ذہبی 

⑤ حافظ ابن حجر (اکتفاء علی قول الذہبی )

⑥ حافظ سیوطی (اکتفاء علی قول ابن الجوزی)

⑦ حافظ ابن عراق

⑧ علامہ محمد بن خلیل بن ابراہیم 

⑨ المشیشی الطرابلسی

⑩ علامہ عبد الحی لکھنوی

جمع و ترتیب : خادم الاسلام ماجد ابن فاروق کشمیری 


تخریج آخری 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں